Header Ads

کرونا کے ساتھ زندگی کیسے گزارنی ہے


*کرونا کے ساتھ زندگی کیسے گزارنی ہے*


پچھلے ایک ہفتے کے دوران بے شمار افراد نے وٹس اپ ، میسنجر اور فون پر ملک کے مختلف علاقوں سے ایک ہی تکلیف کے ساتھ رابطہ کیا اور رہنمائی مانگی ہے۔۔ وہ ہے جسم میں بہت درد اور بخار کے ساتھ خشک کھانسی ۔۔کھانسی کرتے وقت کچھ تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔۔ اور یہ علامات ایک ایک کرکے گھر کے دوسرے افراد میں نمودار ہورہی ہیں۔۔ اور صرف پیناڈول اور پانی کی بھاپ کے استعمال سے نوے فیصد لوگوں کی علامات ختم ہورہی ہیں۔۔۔باقی بھی دو سے تین دن میں ٹھیک ہورہے ہیں۔۔ ان میں سے چند ایک نے کرونا کا ٹیسٹ کروایا تو وہ پازیٹو آیا ۔ جس کے بعد یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کرونا پھیل چکا ہے اور یقینا اس تعداد سے کہیں زیادہ لوگ متاثر ہوچکے ہیں جن کے بارے حکومتی ادارے اندازہ لگا رہےہیں۔۔

اب کیا کیا جائے؟ 
ایک بات دھرا دوں کرونا کی جنگ اعصاب کی جنگ ہے۔ اور یہ جنگ صرف اپنے اعصاب پر قابو رکھ کر جیتی جاسکتی ہے۔۔ آپکا حوصلہ، آپ کی امید اور مثبت سوچ آپکی کامیابی کیلئے پہلی شرط ہے۔۔

پچھلے چند مہینوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں آباد دوستوں سے مسلسل رابطے میں ہوں۔۔ اور ایک بات میں اب وثوق سے کہہ سکتا ہیں کہ لاک ڈائون میں کرونا کاحل موجود نہیں ہے۔۔اب تک کے تجربے، واقعات اور شواہد نے ثابت کر دیا ہے کہ ٹام چاہے جتنے بھی اسباب بنا لے جیری نے ایک نیا رستہ ڈھونڈ لینا ہے۔ کرونا وائرس ایک پریڈیٹر کی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلائے بغیر ہر جگہ رسائی حاصل کرلیتا ہے۔۔
لاک ڈائون والی حکمت عملی بالکل وہی ہے۔جو دشمن کے آنے پر قلعہ بند ہوکر بیٹھ جانا ہوتی تھی ۔۔ آپ کب تک قلعہ بند ہوکر بیٹھ سکتے ہیں؟ اگر آپ نے بہت زیادہ خوراک بھی جمع کرلی ہے تو کتنے ماہ تک گزارہ کر سکتے ہیں؟
جب میں ہندستان کی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے راجھستان کی ایک راجپوت ریاست کا تذکرہ ملتا ہے جس نے اکبر بادشاہ کے خلاف قلعہ بند ہوکر آٹھ نو ماہ تک مقابلہ کرکے دکھایا تھا لیکن پھر ایک وقت آیا کہ سرنڈر ہونا پڑا اور خود کو دھلی حکومت کے ساتھ وفاداری نبھانے کا عہد دینا پڑا۔یہ تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ۔ ورنہ ایک دو ماہ سے زیادہ کوئی بھی قلعہ بند ہوکر اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑ سکتا ہے۔۔

اب واپس آتا ہوں میں کرونا کی جانب۔۔ 
یہ بات ذہن میں کلیئر کرلیں کہ ہمیں کم ازکم اگلے ایک سے دو سال تک کرونا کے ساتھ رہنا ہے۔ اور اب اس سے ڈرنا نہیں اس سے مقابلہ کرنا ہے۔ اس کیلئے ہمیں تیاری کرنا ہے۔۔ 
جب فوجیں سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں تو وہ قربانیوں پر کھڑے ہوکر اپنا مقصد حاصل کرتی ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے ہمارے ہاں جانی نقصان ویسا نہیں ہورھا اور نہ ہی ان شاءاللہ ویسا ہوگا جیسا یورپ اور امریکہ کو کو دیکھنا پڑ رھا ہے لیکن پھر بھی قربانیاں ہونگی۔۔ اور ان قربانیوں کے نتیجے میں ہم محفوظ ہاتھوں میں جائیں گے۔۔ 

اس بارے مجھے ایک امریکی ڈاکٹر کی رائے اچھی لگی ہے کہ جس نے کہا تھا کہ جو افراد کرونا کی وجہ سے مرے ہیں وہ پہلے ہی بارڈر پر کھڑے تھے ۔کرونا نے بس ان کو دھکا دے دیا ہے۔۔ایک بات اور۔۔۔ کرونا سے ہونے والی جوان اور اچانک اموات کو دیکھ کر پریشان مت ہوا کریں۔اپنا حوصلہ مت توڑا کریں۔ ایک نظر اپنی فیملی اور ارد گرد معاشرے پر دوڑا کر دیکھیں کیا ایسی اموات پہلے نہیں ہوتی رہی ہیں؟ آپ کو بیسیوں جوان مرگ ملیں گی۔ اہم عہدوں پر تعینات لوگوں کی اچانک اموات کی داستانیں یاد آئیں گی۔ میرے اپنے بہت سے کالج فیلوز اور فیملی ممبرز ایسے ہیں جن کے بارے یقین نہیں آتا کہ وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔۔

اب ہمیں کیا کرنا ہے۔
ہمیں اپنی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔
اپنی خوراک اچھی کرنا ہوگا۔۔ 
واک اور ورزش کو روزانہ کا معمول بنائیں۔
پھلوں ڈرائی فروٹ کو خوراک کا حصہ بنائیں۔ 
ماسک کے بنا گھر سے کسی کو نکلنے نہ دیا جائے۔۔ 
ہاتھوں کو دھونے کے بارے پالسیی پر سختی سے عمل کیا جائے۔۔ 

ایک بات دوبارہ کلیئر کردوں۔۔ جیسے سردیوں میں نزلہ زکام سے جب ہزاروں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ تو ان میں سے کچھ مریض نمونیئے کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ہم اموات بھی دیکھتے ہیں۔میرا چھوٹا سا کلینک ہر سال ان اموات کا گواہ بنتا ہے۔۔ اور یہ سب چونکہ ہمارے معمولات کا حصہ ہیں تو ہمیں ان اموات کا احساس نہیں ہوتا۔ یا ان کے اعداد و شمار اکھٹے نہیں کئے جاتے۔ اس لئے وہ ہمارے لئے کسی ڈر کا سبب نہیں بنتے ہیں۔اگر صرف پاکستان میں ہی بچے کی پیدائش کے دوران مرنے والی مائوں کے اعداد و شمار، پیدائش کے پہلے ہفتے مرنے والے بچوں کے اعداد و شمار، ہر سال ڈائیریا اور نمونیئے سے مرنے والے افراد کےاعداد و شمار اگر آپ دیکھ لیں تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں۔ ایسے ہی کرونا سے جب لاکھوں بلکہ میں اب کہوں گا کہ کروڑوں لوگ متاثر ہونگے تو یقینا اموات بھی ہونگی۔۔ لیکن پھر ذہن میں رکھ لیں کہ کرونا سے مرنے والوں کا تناسب انتہائی کم ہے۔۔ 

کچھ اہم باتیں۔۔

کرونا کے ہر مریض کو علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔
کرونا سے متاثر ہر سیریس مریض کو وینٹیلیٹر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔۔
بلکہ یوکے کی حالیہ ایک سٹڈی کے مطابق وہاں پر ہونے والی اموات کی ایک وجہ مریضوں کی بہت جلد وینٹیلیٹر پر منتقلی اور وینٹیلیٹر سے ہونے والی کمپلیکیشنز بنی ہے۔۔

اگر آپ میں کرونا وائرس کی علامات آگئی ہیں تو کیا کرنا چاہیئے؟ 

اپنے آپکو پرسکون رکھیں۔
قوت ارادی کو مضبوط رکھیں۔۔
اپنے رب سے تعلق کو گہرا بنائیں۔ 
بخار کی صورت میں پیناڈول استعمال کرتے رہیں۔۔
کھانسی کی صورت میں گرم پانی کی بھاپ لیں۔۔
بہترین سے بہترین خوراک کا استعمال شروع کر دیں۔۔
صبح شام واک کو اپنا معمول بنائیں۔۔
صبح شام کے اذکار کو زندگی کا حصہ بنا لیں۔

مجھے اپنے رب کی رحمت اور فضل پر پورا بھروسا ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور ہم بہت جلد اپنی معمول کی زندگی میں واپس لوٹ آئیں گے

ایک جملہ معترضہ۔۔
کرونا سے مرنے والوں کے حوالے سے ایک بات کہوں گا ۔
ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم کا ایک المیہ ہے کہ وہ مرض کا علاج کرتا ہے مریض کا نہیں۔۔
اس پر کسی موقع پر تفصیل سے بات کروں گا ان شاءاللہ
........................................................

کرونا 
احتیاط سے علاج تک ۔۔۔۔

کرونا کے ساتھ رینا سیکھیئے پوسٹ پڑھنے کے بعد کل سے بیسیوں لوگوں نے ان باکس اور فون پر اپنے تجربات شیئر کیئے ہیں۔۔۔
جس سے ایک تو مرض کی شدت کا اندازہ ہوا ہے کہ اس وقت یہ پوری طرح پھیل چکا ہے۔۔ دوسرا پھیلنے کا انداز بالکل خسرہ یا چکن پاکس کی طرح ہے جس میں گھر کا ایک فرد متاثر ہوتا ہے اور پھر ایک ایک کرکے سب میں علامتیں سامنے آرہی ہیں۔۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ ابھی تک بچے اس سے متاثر نہیں ہورہے اورمتاثرہ خواتین کی تعداد بھی بہت کم دیکھنے میں آرہی۔(وائرس بھی فیمینسٹ نکلا) ایک جو بہت خوش آئند بات لگی ہے وہ یہ کہ کھانسی اورسانس کے مسائل بہت کم مریضوں میں سامنے آرہے ہیں۔۔اور ان شاءاللہ تھوڑی سی ہمت اور حوصلے سے ہم اس مشکل وقت کو بغیر نقصان کے گزار سکتے ہیں۔۔

اپنا اعتماد بحال رکھیں اور ہمت مضبوط ۔ 

اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلق کو جوڑ کر رکھیں۔۔

خدارا ٹوٹکوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔۔کسی کے تجربے یا مشورے کو اس وقت آزمانے کا وقت نہیں ہے۔ 

اس بیماری میں بار بار بخار ہونا یا جسم میں درد ہونا زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے۔ پیناڈول کا ہر چار گھنٹے بعد بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ بار بار شاور لے سکتے۔۔ گیلی چادر کولر اے سی کی مدد لے سکتے۔۔ کبھی کبھی درجہ حرارت نارمل سے کم ہوجاتا ہے اور جسم میں نکاہت اور کمزوری کا شدت سے احساس ہوتا ہے لیکن یہ ایک عارضی کیفیت ہوتی ۔ کھانے پینے اور چلنے پھرنے سے ٹھیک ہوجاتی ہے۔۔

اگر کھانسی کی شکائیت ہے تو اس پر توجہ دیں۔۔ کوئی ٹوٹکا استعمال نہ کریں۔ بس بار بار سٹیم  کا استعمال کریں۔۔

منہ کا ذائقہ خراب ہونا سونگھنے کی حس متاثر ہونا زیادہ فکرمندی والی نہیں۔ چند دن سے چند ہفتوں میں یہ حس لوٹ آتی ہے۔ 

طبیعت جتنی بھی ناساز ہوں۔ اپنے آپکو جہاں تک ممکن ہوسکے حرکت میں رکھیں۔۔۔

پیٹ بھر کر کھانا کھائیں۔ گوشت لیں پھل کھائیں۔ ہر طرح کا پھل استعمال کریں۔ ڈرائی فروٹ لیں۔ کجھور اور شہد کا استعمال کریں۔۔

اپنے آپکو مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھیں۔ 

گھروں سے غیر ضروری باہر مت نکلیں۔ 

گھر سے باہر ماسک کے بغیر نہ نکلیں۔۔ ماسک کا مسلسل استعمال ایک مشکل کام ہے لیکن اس وائرس کے خلاف ہمارا واحد ہتھیار ہے۔ اس پر سختی سے عمل کریں۔ 

اپنے رب سے اس کی رحمت اوراسکا فضل مانگتے رہیں۔۔اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگتے رہیں۔ کیونکہ یہ بیماری اس کی طرف سے ہے اور اسی نے اس کو ہمارے اوپر سے موڑنا ہے۔ 

ڈاکٹر مبشر سلیم

کوئی تبصرے نہیں

Feel free to tell us about any query and suggestion

Jason Morrow کی طرف سے پیش کردہ تھیم کی تصویریں. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.