اہل تشیع چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والی ایک مسلم خاتون کی حقیقت برمبنی داستان
اہل تشیع چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والی ایک مسلم خاتون کی حقیقت برمبنی داستان
کتنا بھیانک اور کربناک دن تھا جب اس کے متعلق سوچتی ہوں میرا دماغ
پھٹنے لگتا ہے پھر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے ایمان کی دولت نصیب
فرمائی ۔۔۔
میرے خاندان کے لوگ ننھیال اور ددھیال دونوں کئ پشتوں سے شیعہ
مذہب سے تعلق رکھتے تھے میرے والد علی پور ضلع مظفرگڑھ میں لاری اڈہ کے قریب فروٹ
کی ریڑھی لگاتے تھے میرے 3 بھائی اور 3 بہنیں ہیں میں سب سے بڑی ہوں۔
ہمارا گھرانہ انتہائی کٹر مذہبی ہے شیعہ مذہب کی تمام رسومات عزاداری
,ماتم ,چہلم ,ولادت علی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا چہلم, جشن غدیر جسے ہم سب سے بڑی
عید کے طور پر مناتے تھے۔میں نے پرائمری کے بعد میڑک بہت اچھے نمبروں میں پاس کر
لیا
تو گھر میں غربت کے باوجود کالج میں داخلہ کروادیا گیا مجھے بچپن ہی
میں غم حسین رضی اللہ عنہ کے مرثیے پڑھنے کا شوق تھا یہ شوق مجھے آہستہ آہستہ ایک
اچھی ذاکرہ کی طرف لے گیا میں لوگوں کے گھروں میں مجلس پڑھنے کیلئے جانے لگی۔جس سے
ہمارے گھر کے حالات بھی کافی بہتر ہونا شروع ہوگے
میں نے اپنے گھر میں بڑی بڑی ضخیم کتابوں کی لائبریری قائم کرلی تھی
بڑی بڑی کتب کے مطالعہ کے باوجود مجھے کئی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں
یہ بات جب میں اپنے ذاکرین اور مجتہدین سے خط و کتابت یا ٹیلی فون کے
زریعے پوچھتی تو انکا مجھے تسلی بخش جواب نہ ملتا جس کے بعد میرے دل میں اپنے مذہب
کے بارے میں بغاوت کی چنگاری پیدا ہوتی جسے میں فوراً بُجھانے کی کوشش کرتی کہیں
امام زمانہ ناراض نہ ہوجائیں، شروع میں مجھے یہ بات کبھی بھی سمجھ نہ آئی ہمارے
امام مہدی جسے ہم امام زمانہ کہتے تھے اور جس کا ہم بڑی شدت کیساتھ انتظار کرتے
تھے وہ غائب کیوں ہوئے ہیں؟
میں یہ سوچتی کہ کہیں یہ تصور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر
اٹھالے جانے کے واقعہ کی وجہ سے تو ہمارے مذہب میں داخل نہیں ہوگیا پھر میں سوچتی
تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کا ذکر تو قرآن میں
موجود ہے لیکن امام زمانہ کے غائب ہونے کا ذکر قرآن میں کہیں نظر نہیں آتا اگر یہ
بات صحیح ہے تو پھر انکا قرآن میں ہونا چاہیے تھا اپنے تخیلات کے چھٹکارے کیلئے
میں نے جامعہ منظر (لاہور) میں طویل خط لکھا جس کا جواب علامہ غلام حسین نجفی نے
دیا یہ جواب کافی عرصہ تک میرے پاس محفوظ رہا اس نے مجھے کافی حد تک مطمئن کردیا
تھا لیکن بعد میں اس خط کے مندرجات نے میری اُلجھنوں میں مزید اضافہ کردیا کیونکہ
انہوں نے لکھا تھا کہ موجودہ قرآن صحیح نہیں ہے۔قرآن جو آپﷺ پر نازل ہوا تھا وہ
اپنی اصلی حالت میں امام مہدی کے پاس محفوظ ہے جب وہ ظاہر ہوں گے تو اصلی قرآن بھی
ساتھ لائیں گے اس قرآن کے اندر ان کے غائب ہونے کا سارا واقعہ اور وجوہات درج
ہیں۔۔۔کافی عرصہ تک میں بھی اسی نظریہ پر قائم رہی یہ ایسا نظریہ تھا جسے ماننے
اور ظاہر کرنے میں بہت بڑے انتشار اور فساد کا ڈر تھا۔پھر مجھے ایک مجتہد صاحب کی
طرف سے تقیہ کے رموز سے آگاہ کیا گیا۔مجھے بتایا گیا کہ تقیہ ہمارے دین کے بنیادی
اصولوں میں سے ایک ہے
اس کی اہمیت اور فضیلت جان لینے کے بعد میرے تمام اشکالات کافی حد تک
دُور ہو چکے تھے۔
اس دوران ہمارے قریبی گاؤں تھیم والا کے ایک نوجوان شکیل سے میری
شادی ہو گئ میرا شوہر محکمہ مال میں ملازم تھا۔
مذہبی معاملات میں اس کا کوئی شغف نہ تھا شیعہ اور سنی وغیرہ کے
مذہبی عقائد و نظریات کو وہ ہی نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان میں کوئی دلچسپی نہیں
تھی،سسرال کے گھر میں میں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
جبکہ ان کے گاؤں میں میری شادی کے بعد میرے بارے میں کافی چہ
میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں سارے معاملات یونہی چلتے رہے بات زیادہ آگے اس لئیے نہ
بڑھ سکی ہر سال محرم کے دوران میں اپنے میکے آجاتی تھی۔
تقریباً 2 سال کے بعد اللّٰہ پاک نے ہمیں ایک چاند سا بیٹا دیا اسکا
نام میں نے علی رضا تجویز کیا تھا اس کے بعد دو بیٹیاں ہوئیں۔
علی رضا جب 10 سال کا ہوا تو حسب سابق محرم کے دنوں میں اپنے ننھیال
کے گھر آگئی۔ میری مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ دن میں 5,5 پروگرام کرتی تھیں۔10
محرم کو میرا بیٹا عزاداروں کے جلوس میں شامل تھا وہ جلوس حسینی امام بارگاہ سے
نکل کر چوک میں پہنچا جہاں پر رش بہت زیادہ تھا نامعلوم وجوہات کی بنا پر ذوالجناح
جسے گھوڑا کہا جاتا ہے۔ وہ بدک گیا اسکی کاٹھی کے ایک بیلٹ نے میرے بیٹے کو اپنی
لپیٹ میں لے لیا۔گھوڑے کی اچھل کود نے میرے بیٹے کو دو تین بار زمین پر پٹخ دیا جس
سے میرے بیٹے کے سر کی ہڈی فریکچر ہوگی اسے بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لیجایا گیا۔
جہاں پر تقریباً 10 دن رہا میں نے اس کی تندرستی اور صحت کیلئے نہ
جانے کتنی منتیں مانیں۔لیکن کوئی دوا اور دعا کارگرنہ ہو سکی آخر کار 20 محرم کو
وہ اس دنیا سے کوچ کرگیا۔
میرا بیٹا فوت کیا ہوا میری دنیا ہی اجڑ گئی 3 ماہ تک مجھے ہوش نہیں
آیا۔ اتنی بیمار ہوگی کہ میرا بچنا مشکل تھا ہر وقت گھر میں پڑی اپنے بیٹے کو یاد
کرتی روتی رہتی تھی۔آخر چارپائی سے ایسی لگی کہ اٹھنا اور بیٹھنا محال ہوگیا۔
میرے شوہر شکیل کے پاس ظفر نامی ایک نوجوان مظفرگڑھ سے آیا کرتا تھا۔
اس کے ساتھ میرے شوہر کی بے حد تکلفی تھی وہ ہمیں بھائیوں کی طرح
عزیز تھا۔مجھے وہ بھابھی کہ کر بلاتا تھا میرے مذہب کے بارے میں اس کو معلوم ہوا
تو وہ ہمارے اور قریب ہوگیا۔
ان دنوں سپاہ صحابہ کے نام سے ایک جماعت جھنگ میں بنی تھی جس کے
سربراہ مولانا حق نواز جھنگوی تھے اس نے میرے شوہر کو اس جماعت کا لٹریچر اور
علماء اکرام کی کیسٹیں دینا شروع کر دی۔
چند مہینوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے شوہر نے میرے ساتھ مذہبی مسائل پر بحث
و مباحثہ شروع کردیا۔میں چونکہ ہر وقت گھر میں چارپائی پر پڑی رہتی تھی اس لیے
مولانا حق نواز جھنگوی کی بات سننے اور سمجھنے میں کافی موقعہ ملا۔
جس نے میرے بچپن میں پیدا ہونے والے سوالات کافی حدتک حل کردیئے۔
پھر میں نے اہلسنت علماء کی کتابیں پڑھی تو مجھے شیعہ مذہب ایک سازش
اور دجل نظر آیا۔
شیعہ ہونے کے باوجود جن باتوں کو دل تسلیم نہیں کرتا تھا ان کی حقیقت
آشکار ہوچکی تھی۔
جس میں امام مہدی کا غائب ہونا مجھے فریب اور دھوکہ نظر آنے لگا۔
پھر ظفر بھائی نے مجھے بتایا کربلا میں گھوڑا نہیں بلکہ اہلبیت کے
سارے قافلے کے پاس جو سواریاں تھیں وہ تو صرف اونٹ ہی تھے۔
کسی شیعہ و سنی کتاب کے اندر گھوڑا ثابت نہیں ہوسکتا۔
یہ باتیں سن کر مجھے میرے بیٹے کا غم کئی گناہ زیادہ محسوس ہونے
لگا۔اس کےبعد میں نے غور کیا تو مجھے کافی اطمینان حاص ہونے لگا کہ اللّٰہ پاک نے
مجھے ایمان کی دولت کی توفیق نصیب فرمائی۔الحمدللہ
(بیگم شکیل علی پور)
رضیت بااللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد نبیﷺ
کوئی تبصرے نہیں
Feel free to tell us about any query and suggestion