Header Ads

دی ایجوکیٹرز کی پاکستان کے خلاف کھلی بغاوت۔

دی ایجوکیٹرز مافیا کا جیت ! 


11 مئی 2020 کو عدالت نے بالآخر دی ایجوکیٹرز مافیا کے خلاف مقدمہ مکمل طور پر خارج کرکے دی ایجوکیٹرز انتظامیہ کو بری کردیا.

دی ایجوکیٹرز سسٹم پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی کو پھیلانے والے بیکن ہاوس سسٹم کا ذیلی ادارہ ہے جس کی تمام ملک میں شاخیں موجود ہیں. 

دی ایجوکیٹرز سسٹم نے پہلی بار سال 2012 میں دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں، ساتوں اور آٹھویں کلاس کو پڑھائے جانے والے کتب میں پاکستان کے نقشے سے مقبوضہ کشمیر , آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو غائب کر دیا, کچھ میڈیا رپورٹس اس پر آئی تاہم جلد ہی معاملہ رفع دفع ہوا.

سال 2015 میں ملتان سے تعلق رکھنے والے اسی ادارے کے ملازم ارمغان حلیم نے ان کتب سے درج بالا نقشے غائب کردینے کے متعلق آواز اٹھائی, ان سے عدالت اور میڈیا کے پاس نہ جانے کا وعدہ لیا گیا اور متنازعہ مواد ہٹانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
تاہم کوئی کاروائی نہیں ہوئی بلکہ یہ نقشے جاری کرنے کے ذمہ دار اکیڈیمک ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کو مزید ترقی دی گئی۔

دی ایجوکیٹرز سسٹم نے سال 2017 میں ایک دفعہ پھر درج بالا کلاسز کے کتب سے نا صرف پورے کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے نقشے سے غائب کردیا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر نصاب کے کتب میں بھی کشمیر کو " انڈین سٹیٹ" کا حصہ دکھایا گیا,  کلاس سیون کے صفحہ نمبر 49 پر اس کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے.

ارمغان حلیم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو کمال ڈھٹائی سے ارمغان کی  جاب ختم کردی گئی، الٹا ان کے خلاف  ایف آئی آر درج کرادی گئی اور قصوری خاندان نے ان پر پچاس لاکھ روپے کا ہرجانہ بھی دائر کیا. سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا.

چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ان کتابوں کا نوٹس لیا , پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے اعتراف کیا کہ واقعی ان کتابوں میں پاکستان کے حوالے سے متنازعہ مواد موجود تھا اس لیے ان کی کتابیں بین کر دی گئیں اور سرکاری مدعیت میں ایف آئی آر درج کردی گئی .
سیکٹری تعلیم ڈاکٹر اللہ بخش مالک نے سپریم کورٹ کو خط لکھا کہ اس پر کاروائی کی جا رہی ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس خارج کر دیا۔

پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے دی ایجوکیٹرزکے ریجنل آفس ملتان پر چھاپا مارا, دیکھا گیا کہ انہیں متنازعہ کتب کی فروخت جاری تھی , باوجود یہ کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ان پر پابندی لگ چکی تھی. 
اس پر ایکشن لیتے ہوئے پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اختر بٹ نے سرکاری مدعیت میں ایف آئی آر درج کروائی,  ایف آئی آر میں چار افراد کو نامزد کیا گیا, جن میں بک پبلشرز، دی ایجوکیٹرز سئنیر منیجمنٹ، شہزاد حُسین ریجنل ہیڈ اور بکس ریجنل مینجر ملتان راؤ وقا شامل تھے. لیکن یہاں بھی چالان میں دی ایجوکیٹرز کے سینئر منیجمنٹ اور بک پبلشر کو نامزد نہیں کیا گیا جن کا نام ایف آئی آر میں درج تھا.

18 ماہ تک متعدد عدالتی سمن جاری ہوئے کہ پنجاب ٹکسٹ بورڈ عدالت میں پیش ہوکر ثبوت پیش کرکے کیس کی پیروی کریں, 
لیکن چونکہ دی ایجوکیٹرز اور پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے مابین معاملات طے پائے گئے تھے اس لیے خفیہ فیصلے کے عین مطابق پنجاب ٹیکسٹ بورڈ عدالت میں پیش نہیں ہورہا تھا اسی کو بنیاد بنا کر  دی ایجوکیٹرز نے عدالت میں اس  کیس کو جھوٹا قرار دیا جن ثبوتوں کے بنا پر عدالت نے ان پر پابندی لگا دی تھی.

عدالت نے ٹکسٹ بورڈ کو پیش ہونے کا نوٹس دیا کہ کیس خارج ہونے سے قبل حاضر تو کم از کم ہوجائے تاہم چونکہ معاملات ٹکسٹ بورڈ اور دی ایجوکیٹرز کے مابین طے پا گئے تھے اس لیے پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے عدالت میں حاضر ہونے کی زحمت نہیں کی.
پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے موقف میں کہا کہ دی ایجوکیٹرز کے ساتھ معاملات طے پائے گئے  ہیں.

جس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے  کتابیں برآمد کرکے کہا تھا کہ متنازعہ مواد اس میں موجود ہے اور خود ایف آئی آر درج کروائی تھی اسی ڈپٹی ڈائریکٹر اختر بٹ نے عدالت میں آکر بیان دیا  کہ ہم نے دی ایجوکیٹرز پر چھاپا مارا تھا لیکن وہ  کتابیں درست تھیں اس لیے ہم نے انہیں این او سی دی جاری کی تھی.

یوں اس کیس کو ختم کرتے ہوئے 11 مئی 2020 کو مقدمہ خارج کردیا گیا .

اب الٹا ارمغان حلیم کو اس ایف آئی آر میں مسلسل تنگ اور حراساں کیا جا رہا ہے جس نے محض پاکستان کا مقدمہ لڑ کر ان مافیاز کو لگام دینے کی کوشش کی ...

تمام ساتھی دی ایجوکیٹرز جیسے مافیا کے مقابلے میں ارمغان کا ساتھ دیجئے جنہوں نے کشمیر اور پاکستان کا مقدمہ لڑ کر حب الوطنی کا حق ادا کیا.

شاہد خان....

1 تبصرہ:

Feel free to tell us about any query and suggestion

Jason Morrow کی طرف سے پیش کردہ تھیم کی تصویریں. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.