ارطغرل مسلمان تھا یا غیر مسلم؟
ارطغرل مسلمان تھا یا غیر مسلم؟
آج کل ترک ڈرامہ ” ارطغرل” کا خوب چرچا ہے جس کی کہانی سلطنتِ عثمانیہ کے بانی سلطان عثمان کے والد ارطغرل کی زندگی اور جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔اس کی مقبولیت دیکھ کر ایک خاص طبقہ کافی بے چین ہے جس کا اظہار مختلف صورتوں میں ہورہا ہے۔جب سے اس ڈرامہ نے عوامی مقبولیت حاصل کی ہے، یہ طبقہ سرتوڑ کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح اس ڈرامہ کی تاثیر کو کم کیا جاسکے ۔ اس سلسلے میں کبھی وہ عثمانیوں کی تاریخ کو مسخ کررہا ہے، کبھی ڈرامہ کے کرداروں کی ذاتی زندگی کو لے کر سُر تان لگا رہا ہے اور کبھی یہ شگوفہ پورے یقین کے ساتھ چھوڑ رہا ہے کہ اس ڈرامہ میں جس ارطغرل غازی کو ایک مجاہد کے روپ میں پیش کیا گیا ہے، وہ دراصل مسلمان ہی نہیں تھا۔اُن کی اس بےچینی کی اصل وجہ کیا ہے، یہ تو آخر میں بتاؤں گا ، فی الحال ہم اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی ارطغرل مسلمان نہیں تھا؟
ہمیں ارطغرل کے بارے میں جو جملہ معلومات دستیاب ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ قائی قبیلہ بہت سے دوسرے ترک قبیلوں کی طرح موجودہ ترکستان سےہجرت کرکے اناطولیہ کی طرف آیا۔ یہاں ایک جگہ سے گزرتے ہوئے اطغرل نے اپنے سو جانبازوں کے ساتھ سلجوقی دستہ کی مدد کی جو صلیبی فوج سے جنگ لڑر ہا تھا۔ سلجوقی سلطان نے خوش ہوکر اس قبیلے کو سوغوت میں جاگیر عطا کی اور ارطغرل کو علاقے کا بڑا سردار بھی بنا دیا۔ ارطغرل اپنی وفات تک یہی رہا اور منگولوں اور صلیبیوں کے ساتھ نبرد آزما رہا۔ وہ مرتے دم تک سلجوقی ریاست کا وفادار اور حلیف رہا۔اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا عثمان سردار بنا جس نے بعد میں سلجوقی سلطنت کے انتشار کی وجہ سے اپنی ریاست کا اعلان کردیا جو بعد میں دنیا کی طاقتور ترین سلطنت بن کر ابھری اور اس نےخلافت کا تاج بھی اپنے سر پر سجالیا۔
اب ارتغرل کے بارے میں ہمیں جو کچھ پتا ہے وہ کسی مستند تاریخ میں موجود نہیں کیوں کہ اس زمانے تک ترکمان خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے اور ان میں اس طرح لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا۔عثمانیوں کے بارے میں ہمیں جو کچھ بھی مستند ذراائع سےپتا چلتا ہے و ہ ارتغرل کی وفات کے بعد یعنی 1300ء کے بعد کے زمانے کے حالات ہیں جب ایک باقاعدہ ریاست قائم ہوچکی تھی۔ اس لیے ارتغرل کے بارے میں میں ہمارا جملہ علم سنی سنائی باتوں، مفروضات اور قیاسات پرمشتمل ہے۔
انھی مفروضات میں سے ایک مفروضہ کا حوالہ ڈاکٹر محمد عزیز نے اپنی تصنیف "دولتِ عثمانیہ” میں دیا ہے۔ ان کے بقول بیس بائیس سال پہلے تک یہ امر مسلم تھا کہ ارطغرل اور اور اس کے ساتھی ایشیائے کوچک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے لیکن 1916ء میں ایک امریکی صحافی ہربرٹ ایڈم گبنز نے اپنی تصنیف "The Foundation of the Ottoman Empire” کے ذریعے بتایا کہ عثمان اور اس کے قبیلے کے لوگ سوغوت میں بود وباش اختیار کرتے وقت بت پرست تھے۔
اسی طرح ایک رائے وہ ہے ڈاکٹر علی محمد صلابی نے اپنی تصنیف "سلطنتِ عثمانیہ ” میں دی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ارتغرل اناطولیہ کے شمال مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا تو اس نے راستے میں سلجوقی اور صلیبی لشکر نبرد آزما دیکھے۔ صلیبی اسلامی لشکر کو پیچھے دکھیل رہے تھے ۔ ارطغر ل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پوری شجاعت اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھے اور ہم مذہب اور ہم عقیدہ بھائیوں کو اس مشکل سے نکالے۔ اسلامی لشکر یہ جنگ جیت گیا اور اس کا امیر ارطغرل کا گرویدہ ہوگیا اور یوں سلجوقیوں کی طرف سے انھیں اناطولیہ کے مغرب میں جاگیر(سوغوت) عطا ہوئی۔پھر آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں سلجوقیوں کو ارطغرل اور اس کے قبیلے کی صورت میں ایک طاقت ور حلیف مل گیا تھا جو صلیبیوں کے خلاف ایک زبردست قوت کا حامل تھا۔
اسی طرح ایک اور رائے کلفیورڈ ای بوسورتھ کی ہے جس نے اپنی کتاب "اسلامی سلطنتیں” میں عثمانیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ جب اناطولیہ کے دیگر علاقوں میں ترک حکومتیں قائم کی جارہی تھیں تو عثمانی بازنطینیوں سے مصروفِ پیکار تھے۔ مشرق سے آنے والے نئے ترکمانوں کی وجہ سے ان کی تقویت ملتی رہی کیوں کہ وہ مہاجرین عیسائیوں کے خلاف غازی بننے کے مشتاق تھے(یعنی ان میں اسلامی جہاد کی روح موجود تھی)۔
ان تین آرا میں صرف پہلی رائے ایسی ہے جس میں ہربرٹ ایڈم گبنز کے حوالے ارطغرل اور اس کے قبیلے کا غیر مسلم ہونا لکھا گیا ہے۔ باقی دونوں آرا ارطغرل اور اس کے قبیلے کو مسلمان بتاتی ہیں۔ اب چوں کہ کوئی مستند تاریخ اور رائے تو موجود نہیں ، تو پھر جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ جس کا جو جی چاہے وہ مفروضہ گھڑ لے یا کسی بھی مفروضے پر ایمان لے آئے۔ ایک بات تو طے ہے کہ وہ جس مفروضہ پر ایمان لائے ہیں، اس کے دلائل بہت ہی کمزور ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے تاریخی شواہد ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ارطغر ل اور اس کے قبیلے کے مسلمان ہونے والی رائے ہی زیادہ مضبوط ہے۔
1۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ عمومی طور پر تمام ترک قبائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ادوار اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کو ترکوں سے پہلا تعلق 652ء میں بنا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی سپاہ نے عبدالرحمن بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ترک علاقوں کی طرف پیش قدمی کی تو ترک سردار شہربراز نے مسلمانوں سے صلح کرلی اور ان کے لشکر کے ساتھ مل گیا۔ اسی لشکر نے بعد میں شمالی فارس کے کچھ علاقے بھی فتح کیے۔ بعد میں مسلمانوں کے حسن اخلاق اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ترک مسلمان ہوگئے ۔پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی لشکر نے مارالنہر کے علاقے میں پڑاؤ کیا ۔ ایک وقت آیا جب ترکوں کے قدیم علاقے کے تمام ترک قبائل نے اسلام قبول کرلیا اور وہ اسلامی لشکر میں شامل ہوکر جہادی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔وہ ترک جو عرب علاقوں میں آکر آباد ہوگئے تھے، انھوں نے آگے چل کر عظیم سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی جو عباسی خلافت کے تابع تھی۔ انھی ترکوں کے بھائی بند وقتا فوقتا ماروالنہر ترکستان سے گاہے بہ گاہے اناطولیہ کی طرف ہجر ت کرتے رہے اور گمان غالب ہے کہ یہ سب مسلمان تھے۔
2۔ارطغرل کا عیسائی لشکر کی بجائے اسلامی لشکر کا ساتھ دینا بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدے اورمذہب کا تعلق تھا۔
3۔ ارطغرل کا اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھنا جو عربی نام ہے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ، خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نسبت پر ہے۔
4۔ارطغرل کے قریبی ساتھی کا نام عبدالرحمن تھا جو ایک اسلامی نام ہے۔
5۔ارطغرل کی شادی سلجوقی سلطان کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے ہوئی جو مسلمان تھی۔
6۔عثمان کی شادی ایک مسلم صوفی کی صاحبزادی مال خاتون سے ہوئی ۔
7۔ارطغرل جس طرح صلیبیوں اور منگولوں کے خلاف جہاد کرتا رہا ، وہ کسی قبائلی عصبیت سے زیادہ دینی حمیت کا اشارہ دیتا ہے۔
8۔ عثمان نے اپنے باپ کی وفات کے دس سال بعد اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جو اس کے قبیلے کے اسلامی جذبے کی طرف اشارہ ہے۔
9۔اگر ارطغرل بت پرست تھا تو اس کی قبر کیوں ہے،اسے تو جلایا جانا چاہیے تھا لیکن سوغوت میں آج بھی ارطغرل کی قبر موجود ہے۔
10۔ ارطغرل کے نام کے ساتھ لکھا جانے والا غازی بذات خود جہاد اور اسلامی تعلیمات کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہ وہ تاریخی شواہد ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ارطغرل اور اس کا قبیلہ پہلے ہی سے مسلمان تھا اور وہ صلیبیوں اور منگولوں کے خلاف اپنے جذبہ ایمانی کی وجہ سے جہاد کرتا رہا جس کا نتیجہ آگے چل کر ایک اسلامی ریاست کی صورت میں سامنے آیا جو مستقبل کی عظیم عثمانی خلافت کے طور پر ابھری۔یہاں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ انگریزی مستشرقین اور مورخین نے جس طرح ہندوستان کی تاریخ مسخ کرکے ہندوستان کے اسلامی دور کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ، اسی طرح خلافت کے کمزور پڑنے کے بعد انھوں نے خلافت عثمانیہ کو بھی اپنے نشانے پر رکھا اور اس کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ یہی کام آج لبرل طبقہ کسی نہ کسی صورت میں سرانجام دے رہا ہے۔
اب یہاں پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ آخر لبرل طبقہ اور قوم پرستوں کو اس طرح کے تاریخی ڈرامہ سے کیا پرخاش ہے؟ تو اس کا جواب جاننے کے لیے ذرا ایک نظر ڈرامہ "ارطغرل” پر ڈالتے ہیں۔
ڈرامہ "ارتغرل غازی” میں جو کلچر دکھایا گیا ہے ، وہ ترک اسلامی کلچر ہے جس میں مذہب اور مقامی روایات کا حسین امتزاج نظر آتاہے ۔ اس ڈرامہ کی بنیاد ی اوصاف میں پاکیزگی، جوشِ ایمان اور اسلام کی سربلندی جیسے تصورات موجود ہیں۔اسی طرح اس کی روح بنیادی طور پر جہادی ہے۔ ڈرامہ کا آغاز ہی تلوار کے لیے لوہا کوٹتے ہوئے اللہ اکبر کے نعروں سے ہوتا ہے جو جوش اور جذبہ جہاد کی قوت لیے ہوئے ہیں۔”ایمان کی طاقت کے آگے فولاد کا نرم پڑنا” اور "مظلوموں کا مددگار بننا” جیسے مکالمے اس جہادی فضا کا پیش نامہ بن جاتے ہیں۔
تو دراصل یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لبرل طبقہ اس ڈرامہ سے ناراض ہی نہیں بلکہ خوف زدہ ہے۔ ان کے خیال میں مسلم دنیا میں اس طرح کے جوشِ ایمانی ، اسلام کے لیے مرمٹنے اور جہادی تصورات لیے ہوئے ڈراموں کو نہیں دکھانا چاہیے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کو "گیم آف تھرون ” جیسے ڈرامہ ہی دیکھنے چاہییں تاکہ ان کے اندر آزاد خیالی اور بے حیائی جیسے وائرس بھی اپنی جگہ بناسکیں. تودراصل ان کا مسئلہ ملکی یا غیر ملکی کلچر کا نہیں بلکہ اسلامی اور غیر
اسلامی کلچر کا ہے اور وہ کس خیمہ میں پناہ لے رہے ہیں ،یہ بھی صاف نظر آرہا ہے۔
تحریر:۔ عاطف الیاس
اچھی پوسٹ ہے، ارطغرل یقینی مسلمان تھا
جواب دیںحذف کریںایسا ہی ہے، مخالفت کرنے والے خود مسلمان نہیں ہیں
جواب دیںحذف کریں